ایک اور غزل تخلیق کرو ایک اور کہانی بن جائے
اس گھٹن زدہ ماحول کی پھر فضا سہانی بن جائے
چپکے چپکے وہ رات دن کے آنسو بہانا یاد کرو
پھر کوئی ایسی غزل کہو جو غزل موہانی بن جائے
کچھ اور ذرا سا صبر کرو کچھ اور ذرا مہلت دے دو
مینا میں پڑی ہی رہنے دو مے اور پرانی بن جائے
وہ دیکھو تو اس شیلا کو جو خود سے پیار جتاتی ہے
کچھ ایسے اس کو اپنا لو وہ خود سے بیگانی بن جائے
کوئی ایسا راگ الاپ ذرا کوئی ایسا نغمہ چھیڑ عظمٰی
جس کی دھن میں گم ہو کے محفل ہی دیوانی بن جائے