ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب
Poet: Deewan e Ghalib By: Tehreem, khi
ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب 
 خون جگر ودیعت مژگان یار تھا 
 
 اب میں ہوں اور ماتم یک شہر آرزو 
 توڑا جو تو نے آئنہ تمثال دار تھا 
 
 گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو کہ میں 
 جاں دادۂ ہوائے سر رہ گزار تھا 
 
 موج سراب دشت وفا کا نہ پوچھ حال 
 ہر ذرہ مثل جوہر تیغ آب دار تھا 
 
 کم جانتے تھے ہم بھی غم عشق کو پر اب 
 دیکھا تو کم ہوے پہ غم روزگار تھا 
 
 کس کا جنون دید تمنا شکار تھا 
 آئینہ خانہ وادی جوہر غبار تھا 
 
 کس کا خیال آئنۂ انتظار تھا 
 ہر برگ گل کے پردے میں دل بے قرار تھا 
 
 جوں غنچہ و گل آفت فال نظر نہ پوچھ 
 پیکاں سے تیرے جلوۂ زخم آشکار تھا 
 
 دیکھی وفاۓ فرصت رنج و نشاط دہر 
 خمیازہ یک درازی عمر خمار تھا 
 
 صبح قیامت ایک دم گرگ تھی اسدؔ 
 جس دشت میں وہ شوخ دو عالم شکار تھا 
 
  
More Mirza Ghalib Poetry






