میں سویا جو اِک شب تو دیکھا یہ خواب
بڑھا اور جِس سے مِرا اضطراب
یہ دیکھا مِرا جو پِسر ہے بڑا
اندھیرے میں ہے ایک جانب کھڑا
لرزتا ہے ڈر سے ہر اِک اُس کا بال
قدم کا ہے دہشت سے اُٹھنا مُحال
مجھے سوتا پایا تو آگے بڑھا
سمجھ کر کہ اب سامنے ہے گڑھا
بڑی چُست پوشاک پہنا ہوا
دیا ایک ہاتھوں میں جلتا ہوا
وہ چُپ چاپ باہر کی جانب رواں
خدا جانے جانا تھا اُس کو کہاں
اِسی خواب میں تھا کہ ہوش آگیا
وہ بستر سے جب آکے ٹکرا گیا
کہا میں نے پہچان کر میری جاں
مجھے چھوڑ کر چل دئیے ہو کہاں
جدائی میں کِس کی ہوئے بے قرار
پروتے ہو کیوں آج اشکوں کے ہار
نہ عزت ہماری ذرا تُم نے کی
چلے چھوڑ ، اچھی وفا تُم نے کی
جو بیٹے نے دیکھا مِرا پیچ و تاب
دیا اُس نے منہ پھیر کر یوں جواب
جو دیکھا مجھے، وہ تو بھاگا گیا
دیا نیند سے اپنی ماں کو اُٹھا
وہ اُٹھتے ہی بس ریفری بن گئی
ریفری کیا، جوالا مُکھی بن گئی
جو دیکھا کہ حالات ہیں اب خراب
میں واپس چلا اور ہوا محوِ خواب
(علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ)