ایک بُلبُل ہے کہ ہے محوِ ترنم اب تک اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک قیدِ موسم سے طبیعت رہی آزاد اس کی کاش گٌلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی