جس کسی کو فون کرتا ہوں اٹھاتا نہیں کوئی
اب پیار سے مجھے گلے لگاتا نہیں کوئی
جھوٹی تعریفوں سے آسماں پہ چڑھاتے تھے لوگ
ان دنوں مجھے سر پہ بھی چڑھاتا نہیں کوئی
میری شاعری سن کر جو بڑے مسکے لگاتے تھے
اب تو منہ زبانی مکھن بھی لگاتا نہیں کوئی
میری راہ میں اپنی پلکیں بچھاتے تھے لوگ
آج تو سوکھے پھول بھی بچھاتا نہیں کوئی
میرے سینے میں تو سبھی کے لیے محپت بھری ہے
میری جانب دوستی کا ہاتھ بڑھاتا نہیں کوئی
پہلے پہل طرح طرح کے کھانے کھلاتے تھے لوگ
آج کل تو زبانی پلاؤ کھلاتا نہیں کوئی
اصغر جیسے بے روزگار سے پیار کر کے
ایسا بھلا کام کر کے ثواب کماتا نہیں کوئی