اے اجل اے جان فانیؔ تو نے یہ کیا کر دیا
مار ڈالا مرنے والے کو کہ اچھا کر دیا
جب ترا ذکر آ گیا ہم دفعتاً چپ ہو گئے
وہ چھپایا راز دل ہم نے کہ افشا کر دیا
کس قدر بے زار تھا دل مجھ سے ضبط شوق پر
جب کہا دل کا کیا ظالم نے رسوا کر دیا
یوں چرائیں اس نے آنکھیں سادگی تو دیکھیے
بزم میں گویا مری جانب اشارا کر دیا
دردمندان ازل پر عشق کا احساں نہیں
درد یاں دل سے گیا کب تھا کہ پیدا کر دیا
دل کو پہلو سے نکل جانے کی پھر رٹ لگ گئی
پھر کسی نے آنکھوں آنکھوں میں تقاضا کر دیا
رنج پایا دل دیا سچ ہے مگر یہ تو کہو
کیا کسی نے دے کے پایا کس نے کیا پا کر دیا
بچ رہا تھا ایک آنسودار و گیر ضبط سے
جوشش غم نے پھر اس قطرے کو دریا کر دیا
فانیؔ مہجور تھا آج آرزو مند اجل
آپ نے آ کر پشیمان تمنا کر دیا