اے بارشو نہ برسو اتنا کہ جل رہا ہے کوئی کچھ تو خیال کرو
دَرد کے بِستر پہ پڑا ہوں کچا ہے میرا مُکاں کچھ تو خیال کرو
کیا بتاؤں زہر سی لگتی ہے تیری چھنکار مجھے اے بارش
کوئی سِسک رہا ہے تم بَرس رہے ہو کچھ تو خیال کرو
میو کَش ہوں کس میں ہے زمانہ بھی باخبر اس سے
میرے آنگن میں نہیں گنجیش غَم کی کچھ تو خیال کرو
تھا وقت کہ انتظار رہا کرتا تھا یہ اس سوہانے موسم کا
اب ٹوٹ سا جاتا ہوں یہ توڑ دیتا ہے کچھ تو خیال کرو
ورق ورق رُولاتا ہے مجھے میرے لکھے افسانے کا نفیس
لوٹ آو نہ کسی شب یا میرے مرنے کی تم دعا کرو