اے خدا
کیسے کروں تیری ثناء؟
میں وہ عاصی ہوں کہ جس کا ڈولتا ایماں
کہاں ، کب ، کس نہج پر جا کھڑا ہو
کیا بھروسا؟
میں وہ عاصی
جس کے باطن میں اندھیروں کے سوا
کچھ بھی نہیں ہے
اور توکل
زندگی کی تلخیوں سے ہار مانے
یاسیت کے پاؤں میں بیٹھا ہے کب سے
اے خدا !کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔ ناامیدی کے سوا
اے خدا!
کیسے کروں ؟ تیری ثناء!
اے خدا!
میری زباں نے جھوٹ کی پوشاک پہنے
قوتِ گویائی کو سر کر لیا ہے
آنکھ کا ایمان بھی کچھ ناتواں ہے
تیرے جلوے دیکھ کر بھی نم نہیں ہے ؟
اس جہاں کے ناخداؤں سے ملا کر
ہاتھ بھی کالے ہوئے ہیں دل کے جیسے
یہ قلم لکھے گا کیسے تیری عظمت !
حاکموں کی چاکری پہ مرمٹا ہے
اے خدا! شرمندگی کی انتہا ہے
اے خدا ! کیسے کروں تیری ثناء