اے دوست یہ باتیں تم شاید سمجھو نہ مرے سمجھانے سے
انجام محبت کا کیا ہے پوچھو یہ کسی پروانے سے
کم بخت یہ دل اُف کام پڑا مجھ کو بھی عجب دیوانے سے
سمجھے نہ کبھی سمجھانے سے بہلے نہ کبھی بہلانے سے
تنہائی میں اکثر دل سے مری اس طرح بھی باتیں ہوتی ہیں
جس طرح کرے باتیں کوئی دیوانہ کسی دیوانے سے
بے عشق تمیزِ حسن نہیں بے حسن وجودِ عشق نہیں
پیمانے کی عزت مے سے ہے اور رونق مے پیمانے سے
بربادی مجھے اپنے دل کی بے ساختہ یاد آجاتی ہے
جب بھی کبھی اختر میرا گذر ہوتا ہے کسی ویرانے سے