اے شۂ کونین ہو کیسے بیان مدحت تری
گنبدِ افلاک سے ہے بالا تر رفعت تری
خود بلایا آسماں پہ قدمِ رنجہ کے لیۓ
بھا گئی یزداں کو یوں صورت تری ، سیرت تری
کر دیا تقسیم جو کچھ بھی ملا غزوات میں
دوسروں کے کام آنا تھی سدا عادت تری
فرق رکھا تھا نہ مولاؐ تو نے خاص و عام میں
ہر کس و نا کس کی خاطر عام تھی شفقت تری
قیس و کسریٗ بھی سہم کر نام لیتے تھے ترا
چھائی تھی اُن کے دلوں پر اس طرح ہیبت تری
نام پہلا ہے ترا جود و سخا کے باب میں
مانتے تھے غیر مسلم بھی سدا عظمت تری
اے شہنشاہِ دو عالم ، اے حبیبِ کبریا
غیر ممکن ہے بیاں کر پاؤں میں عظمت تری
مال و زر کی تو نہیں مجھ کو زمانے سے طلب
ہے بہت میرے لیۓ آقا فقط چاہت تری
دیکھ لوں گی اُس گھڑی میں بھی مدینے کی گلی
مجھ پہ شاہا جس گھڑی ہو جاۓ گی رحمت تری