اے میر ے مہربان پروردگار
ہم ہیں عاصی اور تو آمرزگار
ہے میری سوچ کس قدر محدود
تیری رحمت کا ہو گا کس سے شمار
جو تیرے آسرے پہ جیتا ہے
ہو گیا اس کا پھر تو بیڑا پار
تیری رحمت کے ہوں جہاں پتوار
کیوں ہراساں کرے وہاں پتوار
یاد تیری سدا ہے ورد زباں
نہ بھلاؤں گا یہ سبق زنہار
حد ادراک تک تیری قدرت
طائر سدرہ بھی ہوا لا چار
رب کی ہستی کہاں اورکیسی ہے
کس سے جا کر کریں یہ استفسار
فہم و ادراک سے تو بالاتر
تیری رحمت کے ہر جگہ انبار
ساز ہستی کی دھن یہ کہتی ہے
خواب غفلت سے لوگ ہوں بیدار
کہہ رہی ہے یہ رفتگاں کی یاد
ہر مسافر عدم کو ہو لے تیار
بڑھتی رسی پھلانگتا ہے جو
پڑ گئی اس پہ پھر تیری پھٹکار
حجر اسود کو چوم کر شبیر
روؤں گا ایک دن میں زار و قطار