ہر بارش میں ، یوں کرتا ہوں
بوندیں ہاتھوں میں، بھرتا ہوں
تیرے بارے میں ہی، سوچوں میں
ہر بوند میں تجھ کو، ڈھونڈوں میں
کہ پچھلے برس، اس موسم میں
ہم ساتھ ساتھ ہی رہتے تھے
اُس موسم کی، ہر بارش میں
ہم ساتھ ساتھ ہی بھیگے تھے
جو تم نے مجھے کہا تھا جاناں
بس اسی کو سوچ رہا تھا جاناں
کہ موسم بے پرواہ ہے ناں
کتنا بیوفا ہے ناں
پل میں بارش، پل میں دھوپ
کیسے بدلے ہے یہ روپ
کبھی گلشن کو بہار یہ دے
کبھی پت جھڑ میں پھر مار یہ دے
تم بھی تو ایسے نکلے
جیسا کہتے تھے ، تم موسم کو
خود بھی تو ہو ویسے نکلے
تم کتنے بے پرواہ ہو ناں
موسم سے بیوفا ہو ناں
جو تم نے سنگ بیتانے تھے
وہ موسم پھر بیتائے کیوں نہ؟
لوٹ آیا ہے وہی موسم پھر سے
تم بھی لوٹ کے آئے کیوں نہ؟
موسم بے پرواہ نہ ہے
تجھ سا بیوفا نہ ہے
بارشوں کے آنے سے
میں اسی بہانے سے
جی بھر کے رو لیتا ہوں
غبار من کا دھو لیتا ہوں
(طارق اقبال حاوی)