بت بھی اس میں رہتے تھے دل یار کا بھی کاشانہ تھا
Poet: Bedam Shah Warsi By: dilawar, khi
بت بھی اس میں رہتے تھے دل یار کا بھی کاشانہ تھا
ایک طرف کعبے کے جلوے ایک طرف بت خانہ تھا
دلبر ہیں اب دل کے مالک یہ بھی ایک زمانہ ہے
دل والے کہلاتے تھے ہم وہ بھی ایک زمانہ تھا
پھول نہ تھے آرائش تھی اس مست ادا کی آمد پر
ہاتھ میں ڈالی ڈالی کے ایک ہلکا سا پیمانہ تھا
ہوش نہ تھا بے ہوشی تھی بے ہوشی میں پھر ہوش کہاں
یاد رہی خاموشی تھی جو بھول گئے افسانہ تھا
دل میں وصل کے ارماں بھی تھے اور ملال فرقت بھی
آبادی کی آبادی ویرانے کا ویرانہ تھا
اف رے باد جوش جوانی آنکھ نہ ان کی اٹھتی تھی
مستانہ ہر ایک ادا تھی ہر عشوہ مستانہ تھا
شمع کے جلوے بھی یارب کیا خواب تھا جلنے والوں کا
صبح جو دیکھا محفل میں پروانہ ہی پروانہ تھا
دیکھ کے وہ تصویر مری کچھ کھوئے ہوئے سے کہتے ہیں
ہاں ہاں یاد تو آتا ہے اس شکل کا اک دیوانہ تھا
غیر کا شکوہ کیوں کر رہتا دل میں جب امیدیں تھیں
اپنا پھر بھی اپنا تھا بیگانہ پھر بیگانہ تھا
بیدمؔ اس انداز سے کل یوں ہم نے کہی اپنی بیتی
ہر ایک نے سمجھا محفل میں یہ میرا ہی افسانہ تھا
تو پھر سجدہ مری ہر لغزش مستانہ ہو جائے
وہی دل ہے جو حسن و عشق کا کاشانہ ہو جائے
وہ سر ہے جو کسی کی تیغ کا نذرانہ ہو جائے
یہ اچھی پردہ داری ہے یہ اچھی رازداری ہے
کہ جو آئے تمہاری بزم میں دیوانہ ہو جائے
مرا سر کٹ کے مقتل میں گرے قاتل کے قدموں پر
دم آخر ادا یوں سجدۂ شکرانہ ہو جائے
تری سرکار میں لایا ہوں ڈالی حسرت دل کی
عجب کیا ہے مرا منظور یہ نذرانہ ہو جائے
شب فرقت کا جب کچھ طول کم ہونا نہیں ممکن
تو میری زندگی کا مختصر افسانہ ہو جائے
وہ سجدے جن سے برسوں ہم نے کعبہ کو سجایا ہے
جو بت خانے کو مل جائیں تو پھر بت خانہ ہو جائے
کسی کی زلف بکھرے اور بکھر کر دوش پر آئے
دل صد چاک الجھے اور الجھ کر شانہ ہو جائے
یہاں ہونا نہ ہونا ہے نہ ہونا عین ہونا ہے
جسے ہونا ہو کچھ خاک در جانانہ ہو جائے
سحر تک سب کا ہے انجام جل کر خاک ہو جانا
بنے محفل میں کوئی شمع یا پروانہ ہو جائے
وہ مے دے دے جو پہلے شبلی و منصور کو دی تھی
تو بیدمؔ بھی نثار مرشد مے خانہ ہو جائے
میرے ساقی مجھے مست مے عرفاں کرنا
داغ دل سینے میں آہوں سے نمایاں کرنا
ہم سے سیکھے شب غم کوئی چراغاں کرنا
حرم و دیر میں جا جا کے چراغاں کرنا
جستجو تیری ہمیں تا حد امکاں کرنا
دل کے بہلانے کا وحشت میں یہ ساماں کرنا
چشم خوں بار سے دامن کو گلستاں کرنا
ہوس سیر گلستاں نے قفس دکھلایا
اب اسیرو نہ کبھی قصد گلستاں کرنا
اہل بیداد کے جب نام پکارے جائیں
تم نہ گھبرا کے سر حشر کہیں ہاں کرنا
نہ کبھی میں نے کہا تھا کہ مجھے درد ملے
نہ کہوں گا کہ مرے درد کا درماں کرنا
ان کے دیوانوں کو سر پھوڑ کے دیواروں سے
آج منظور ہے آرائش زنداں کرنا
شیخ کو کعبہ مبارک ہو برہمن کو کنشت
ہم کو سجدہ طرف کوچۂ جاناں کرنا
اے صبا تجھ کو اسی زلف پریشاں کی قسم
میرا شیرازۂ ہستی بھی پریشاں کرنا
ان کے دیوانوں کی اعجاز نگاہی دیکھو
آنکھ اٹھانا کہ گلستاں کو بیاباں کرنا
داغ دل پردے میں رہ جائے نہ اے دست جنوں
چاک کچھ اور ابھی میرا گریباں کرنا
لا کے پھر مصر میں اے عشق کسی یوسف کو
پھر نئے رنگ سے آرائش زنداں کرنا
دشت غربت میں ترے خاک نشیں اچھے ہیں
چاہئے اور انہیں بے سر و ساماں کرنا
ذوق سجدہ تجھے سنگ در جاناں کی قسم
ہوش کا مجھ کو نہ شرمندۂ احساں کرنا
اٹھ رہے ہیں مرے نظروں سے دوئی کے پردے
کچھ مدد اور خیال رخ جاناں کرنا
بن گئے حیرت نظارہ کی صورت بیدمؔ
راس آیا نہ ہمیں دید کا ارماں کرنا
ایک طرف کعبے کے جلوے ایک طرف بت خانہ تھا
دلبر ہیں اب دل کے مالک یہ بھی ایک زمانہ ہے
دل والے کہلاتے تھے ہم وہ بھی ایک زمانہ تھا
پھول نہ تھے آرائش تھی اس مست ادا کی آمد پر
ہاتھ میں ڈالی ڈالی کے ایک ہلکا سا پیمانہ تھا
ہوش نہ تھا بے ہوشی تھی بے ہوشی میں پھر ہوش کہاں
یاد رہی خاموشی تھی جو بھول گئے افسانہ تھا
دل میں وصل کے ارماں بھی تھے اور ملال فرقت بھی
آبادی کی آبادی ویرانے کا ویرانہ تھا
اف رے باد جوش جوانی آنکھ نہ ان کی اٹھتی تھی
مستانہ ہر ایک ادا تھی ہر عشوہ مستانہ تھا
شمع کے جلوے بھی یارب کیا خواب تھا جلنے والوں کا
صبح جو دیکھا محفل میں پروانہ ہی پروانہ تھا
دیکھ کے وہ تصویر مری کچھ کھوئے ہوئے سے کہتے ہیں
ہاں ہاں یاد تو آتا ہے اس شکل کا اک دیوانہ تھا
غیر کا شکوہ کیوں کر رہتا دل میں جب امیدیں تھیں
اپنا پھر بھی اپنا تھا بیگانہ پھر بیگانہ تھا
بیدمؔ اس انداز سے کل یوں ہم نے کہی اپنی بیتی
ہر ایک نے سمجھا محفل میں یہ میرا ہی افسانہ تھا






