کہ جب سے عشق محمد کا دل میں نور رہا
اندھیرا مجھ سے ہمیشہ بہت ہی دور رہا
دیا سنبھالا وگرنہ میرا یہ عالم تھا
گناہ کر کے گناہ کے نشے میں چور رہا
میں سینہ زوری سے کرتا رہا گناہوں کو
مگر وہ رب میرا پھر بھی فقط صبور رہا
یہ عجز انکی عنایت ہے ورنہ کل تک تو
گمھنڈ مزاج میں طبیعت میں تھا فتور رہا
یہ صبر و شکر بھی انکی عطا کا صدقہ پے
وگرنہ میری نیت میں تو بس فتور رہا
حضور آپ سنا ہے قصور بخشتے ہیں
قصور والوں میں شامل یہ پرقصور رہا
رسول آپکی مدحت میری مجال کہاں
یہ بے ادب تو تقاضوں سے بے شعور رہا
کہ جب سے نعت کے رستے کو تو نے اپنایا
تیرے کلام میں اشہر عجب سرور رہا