Add Poetry

بد قسمتی کو یہ بھی گوارا نہ ہو سکا

Poet: Shakeb Jalali By: Ghazanfar, multan
Bad Qismati Ko Yeh Bhi Gawara Na Ho Saka

بد قسمتی کو یہ بھی گوارا نہ ہو سکا
ہم جس پہ مر مٹے وہ ہمارا نہ ہو سکا

رہ تو گئی فریب مسیحا کی آبرو
ہر چند غم کے ماروں کا چارہ نہ ہو سکا

خوش ہوں کہ بات شورش طوفاں کی رہ گئی
اچھا ہوا نصیب کنارا نہ ہو سکا

بے چارگی پہ چارہ گری کی ہیں تہمتیں
اچھا کسی سے عشق کا مارا نہ ہو سکا

کچھ عشق ایسی بخش گیا بے نیازیاں
دل کو کسی کا لطف گوارا نہ ہو سکا

فرط خوشی میں آنکھ سے آنسو نکل پڑے
جب ان کا التفات گوارا نہ ہو سکا

الٹی تو تھی نقاب کسی نے مگر شکیبؔ
دعووں کے باوجود نظارہ نہ ہو سکا

Rate it:
Views: 1043
29 Dec, 2016
More Shakeb Jalali Poetry
آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے
جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پس دیوار گرے
ایسی دہشت تھی فضاؤں میں کھلے پانی کی
آنکھ جھپکی بھی نہیں ہاتھ سے پتوار گرے
مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں
جس طرح سایۂ دیوار پہ دیوار گرے
تیرگی چھوڑ گئے دل میں اجالے کے خطوط
یہ ستارے مرے گھر ٹوٹ کے بے کار گرے
کیا ہوا ہاتھ میں تلوار لیے پھرتی تھی
کیوں مجھے ڈھال بنانے کو یہ چھتنار گرے
دیکھ کر اپنے در و بام لرز جاتا ہوں
مرے ہم سایے میں جب بھی کوئی دیوار گرے
وقت کی ڈور خدا جانے کہاں سے ٹوٹے
کس گھڑی سر پہ یہ لٹکی ہوئی تلوار گرے
ہم سے ٹکرا گئی خود بڑھ کے اندھیرے کی چٹان
ہم سنبھل کر جو بہت چلتے تھے ناچار گرے
کیا کہوں دیدۂ تر یہ تو مرا چہرہ ہے
سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے
ہاتھ آیا نہیں کچھ رات کی دلدل کے سوا
ہائے کس موڑ پہ خوابوں کے پرستار گرے
وہ تجلی کی شعاعیں تھیں کہ جلتے ہوئے پر
آئنے ٹوٹ گئے آئنہ بردار گرے
دیکھتے کیوں ہو شکیبؔ اتنی بلندی کی طرف
نہ اٹھایا کرو سر کو کہ یہ دستار گرے
saeed
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets