اب یہ طے ھوا کہ آج پھر ملاقات کریں گے
برسوں کی دوستی پہ پھر سے بات کریں گے
جھاڑیں گے تعلقات سے یوں فاصلوں کی دھول
باتوں میں محو ھو کے صبح سے رات کریں گے
وہ وقت بھی پل صراط تھا جو گزرا تیرے بغیر
اب روشنیوں اور تجلیوں کی برسات کریں گے
جو وسوسوں کی بارشیں تھیں اب وہ تھم گئیں
اعتماد کی فضاء میں اب ہر بات کریں گے
رواجؤں کے گنجلوں میں اسقدر الجھا ھوا تھا میں
سلجھا کے سب کچھ خوشیؤں کو سوغات کریں گے