برس یوں نیا ہم منانے لگے ہیں
پرانے گھاؤ جوں ٹھکانے لگے ہیں
ترا نام لے کے، تری باتیں کر کے
یہ احباب مجھ کو ستانے لگے ہیں
میں تو جا چکا ہوں مگر لوگ سارے
کہانی مری ہی سنانے لگے ہیں
چھپا کے منھ بیٹھا ہوں محفل میں تیری
ترے لوگ مجھ کو اٹھانے لگے ہیں
کسی بھی طرح دل نہیں آنا ان پہ
اگرچہ یہ چہرے سہانے لگے ہیں
جو تصویر تیری لگائی تھی ہم نے
اسے کمرے میں سے ہٹانے لگے ہیں
اڑا ہیں چکے خاک تیری گلی میں
یہ مجنوں نگر اب بسانے لگے ہیں