بستی میں اب کوئی گھر روشن نہیں ہے
دکھ یہ ہے لوگوں کو بھی الجھن نہیں ہے
سو چراغوں کو جلا رکھّا ہے لیکن
گھر ہے کہ پھر بھی ہوا روشن نہیں ہے
چھوڑ سکتے ہو مجھے اس بار سچ میں
اب کے مجھ کو بھی کوئی الجھن نہیں ہے
یاد میں تیری جلا ہے رات دن یہ
خانہ دل میں اور اب ایندھن نہیں ہے
رنجشیں بےحد ہیں اس کے من میں طاہر
وہ بظاہر تو مرا دشمن نہیں ہے