بس یوں ہی اک وہم سا ہے واقعہ ایسا نہیں
آئنے کی بات سچی ہے کہ میں تنہا نہیں
بیٹھیے پیڑوں کی اترن کا الاؤ تاپئے
برگ سوزاں کے سوا درویش کچھ رکھتا نہیں
اف چٹخنے کی صدا سے کس قدر ڈرتا ہوں میں
کتنی باتیں ہیں کہ دانستہ جنہیں سوچا نہیں
اپنی اپنی سب کی آنکھیں اپنی اپنی خواہشیں
کس نظر میں جانے کیا جچتا ہے کیا جچتا نہیں
چین کا دشمن ہوا اک مسئلہ میری طرف
اس نے کل دیکھا تھا کیوں اور آج کیوں دیکھا نہیں
اب جہاں لے جائے مجھ کو جلتی بجھتی آرزو
میں بھی اس جگنو کا پیچھا چھوڑنے والا نہیں
کیسی کیسی پرسشیں انورؔ رلاتی ہیں مجھے
کھیتیوں سے کیا کہوں میں ابر کیوں برسا نہیں