بنے بنائے سے رستوں کا سلسلہ نکلا
Poet: Khalilul Rahman Azmi By: Lateef, khi
بنے بنائے سے رستوں کا سلسلہ نکلا
نیا سفر بھی بہت ہی گریز پا نکلا
نہ جانے کس کی ہمیں عمر بھر تلاش رہی
جسے قریب سے دیکھا وہ دوسرا نکلا
ہمیں تو راس نہ آئی کسی کی محفل بھی
کوئی خدا کوئی ہم سایۂ خدا نکلا
ہزار طرح کی مے پی ہزار طرح کے زہر
نہ پیاس ہی بجھی اپنی نہ حوصلہ نکلا
ہمارے پاس سے گزری تھی ایک پرچھائیں
پکارا ہم نے تو صدیوں کا فاصلہ نکلا
اب اپنے آپ کو ڈھونڈیں کہاں کہاں جا کر
عدم سے تا بہ عدم اپنا نقش پا نکلا
More Khalilur Rahman Azmi Poetry
کہوں یہ کیسے کہ جینے کا حوصلہ دیتے کہوں یہ کیسے کہ جینے کا حوصلہ دیتے
مگر یہی کہ مجھے غم کوئی نیا دیتے
شب گزشتہ بہت تیز چل رہی تھی ہوا
صدا تو دی پہ کہاں تک تجھے صدا دیتے
کئی زمانے اسی پیچ و تاب میں گزرے
کہ آسماں کو ترے پاؤں پر جھکا دیتے
یہ کہئے لوح جبیں پر ہے داغ رسوائی
زمانے والے ہمیں خاک میں ملا دیتے
ہوئی تھی ہم سے جو لغزش تو تھام لینا تھا
ہمارے ہاتھ تمہیں عمر بھر دعا دیتے
بھلا ہوا کہ کوئی اور مل گیا تم سا
وگرنہ ہم بھی کسی دن تمہیں بھلا دیتے
کوئی ہو لمحۂ فرصت کہ بیٹھ کر ہم بھی
ذرا عروس تمنا کو آئینہ دیتے
ملا ہے جرم وفا پر عذاب مہجوری
ہم اپنے آپ کو اس سے کڑی سزا دیتے
زباں پہ کس لیے یہ حرف ناگوار آتا
ہمارے زخم ہمارا اگر پتا دیتے
ذرا سی دیر ٹھہرتی جو گردش ایام
اسے شباب گریزاں کا واسطہ دیتے
مگر یہی کہ مجھے غم کوئی نیا دیتے
شب گزشتہ بہت تیز چل رہی تھی ہوا
صدا تو دی پہ کہاں تک تجھے صدا دیتے
کئی زمانے اسی پیچ و تاب میں گزرے
کہ آسماں کو ترے پاؤں پر جھکا دیتے
یہ کہئے لوح جبیں پر ہے داغ رسوائی
زمانے والے ہمیں خاک میں ملا دیتے
ہوئی تھی ہم سے جو لغزش تو تھام لینا تھا
ہمارے ہاتھ تمہیں عمر بھر دعا دیتے
بھلا ہوا کہ کوئی اور مل گیا تم سا
وگرنہ ہم بھی کسی دن تمہیں بھلا دیتے
کوئی ہو لمحۂ فرصت کہ بیٹھ کر ہم بھی
ذرا عروس تمنا کو آئینہ دیتے
ملا ہے جرم وفا پر عذاب مہجوری
ہم اپنے آپ کو اس سے کڑی سزا دیتے
زباں پہ کس لیے یہ حرف ناگوار آتا
ہمارے زخم ہمارا اگر پتا دیتے
ذرا سی دیر ٹھہرتی جو گردش ایام
اسے شباب گریزاں کا واسطہ دیتے
jamshed
بنے بنائے سے رستوں کا سلسلہ نکلا بنے بنائے سے رستوں کا سلسلہ نکلا
نیا سفر بھی بہت ہی گریز پا نکلا
نہ جانے کس کی ہمیں عمر بھر تلاش رہی
جسے قریب سے دیکھا وہ دوسرا نکلا
ہمیں تو راس نہ آئی کسی کی محفل بھی
کوئی خدا کوئی ہم سایۂ خدا نکلا
ہزار طرح کی مے پی ہزار طرح کے زہر
نہ پیاس ہی بجھی اپنی نہ حوصلہ نکلا
ہمارے پاس سے گزری تھی ایک پرچھائیں
پکارا ہم نے تو صدیوں کا فاصلہ نکلا
اب اپنے آپ کو ڈھونڈیں کہاں کہاں جا کر
عدم سے تا بہ عدم اپنا نقش پا نکلا
نیا سفر بھی بہت ہی گریز پا نکلا
نہ جانے کس کی ہمیں عمر بھر تلاش رہی
جسے قریب سے دیکھا وہ دوسرا نکلا
ہمیں تو راس نہ آئی کسی کی محفل بھی
کوئی خدا کوئی ہم سایۂ خدا نکلا
ہزار طرح کی مے پی ہزار طرح کے زہر
نہ پیاس ہی بجھی اپنی نہ حوصلہ نکلا
ہمارے پاس سے گزری تھی ایک پرچھائیں
پکارا ہم نے تو صدیوں کا فاصلہ نکلا
اب اپنے آپ کو ڈھونڈیں کہاں کہاں جا کر
عدم سے تا بہ عدم اپنا نقش پا نکلا
Lateef
اس پر بھی دشمنوں کا کہیں سایہ پڑ گیا اس پر بھی دشمنوں کا کہیں سایہ پڑ گیا
غم سا پرانا دوست بھی آخر بچھڑ گیا
جی چاہتا تو بیٹھتے یادوں کی چھاؤں میں
ایسا گھنا درخت بھی جڑ سے اکھڑ گیا
غیروں نے مجھ کو دفن کیا شاہراہ پر
میں کیوں نہ اپنی خاک میں غیرت سے گڑ گیا
خلوت میں جس کی نرم مزاجی تھی بے مثال
محفل میں بے سبب وہی مجھ سے اکڑ گیا
بس اتنی بات تھی کہ عیادت کو آئے لوگ
دل کے ہر ایک زخم کا ٹانکا ادھڑ گیا
کس کس کو اپنے خون جگر کا حساب دوں
اک قطرہ بچ رہا ہے سو وہ بھی نبڑ گیا
یاروں نے خوب جا کے زمانے سے صلح کی
میں ایسا بددماغ یہاں بھی بچھڑ گیا
کوتاہیوں کی اپنی میں تاویل کیا کروں
میرا ہر ایک کھیل مجھی سے بگڑ گیا
اب کیا بتائیں کیا تھا خیالوں کے شہر میں
بسنے سے پہلے وقت کے ہاتھوں اجڑ گیا
غم سا پرانا دوست بھی آخر بچھڑ گیا
جی چاہتا تو بیٹھتے یادوں کی چھاؤں میں
ایسا گھنا درخت بھی جڑ سے اکھڑ گیا
غیروں نے مجھ کو دفن کیا شاہراہ پر
میں کیوں نہ اپنی خاک میں غیرت سے گڑ گیا
خلوت میں جس کی نرم مزاجی تھی بے مثال
محفل میں بے سبب وہی مجھ سے اکڑ گیا
بس اتنی بات تھی کہ عیادت کو آئے لوگ
دل کے ہر ایک زخم کا ٹانکا ادھڑ گیا
کس کس کو اپنے خون جگر کا حساب دوں
اک قطرہ بچ رہا ہے سو وہ بھی نبڑ گیا
یاروں نے خوب جا کے زمانے سے صلح کی
میں ایسا بددماغ یہاں بھی بچھڑ گیا
کوتاہیوں کی اپنی میں تاویل کیا کروں
میرا ہر ایک کھیل مجھی سے بگڑ گیا
اب کیا بتائیں کیا تھا خیالوں کے شہر میں
بسنے سے پہلے وقت کے ہاتھوں اجڑ گیا
Kabir






