کِیاکِیا نہ پلاننگ تھی اس بار فَار عید
بَوجوہ نو بونس ،جملہ ارمانوں پہ اوس پا گئی عید
سَبھوں کو تکیہ تھا اَگین جس بونس پہ اس بار
فَسٹ ٹائم، تکیہ یہ دغا دے گیا بر سر عید
جَہاں سِلانے تھے سوٹ چار،کیا گزارہ ایک پر
درزی سے کیا ادھار ، کہا ملنے تلک اگلی عید
جہاں دینے تھے سو، چلایا کام پچاس سے
گر چہ اس سانحے نے گرائی بجلیاں کئی سرِ عید
روز عید چلایا کام صرف شربت روح افزا سے
کولڈ ڈرنک کا خرچہ تو آخر بچا ہی گئی یہ عید
مِٹھائی کی جگہ کام آ ئی وہی ٹافی روپے والی
گرچہ نارا ض کر گئی بہت سوں کو یہ عید
نئے جھمکے نہ ملنے سے انداز بیگم رہا کچھ تلخ تلخ
کھانے کی ہر اک شے میں پا ئی کِر کِر سی رو زِ عید
لیا نام جب بھی بچوں نے سیر سپاٹے کا
کہہ کر یہی ٹالا نہ چھیڑو،چڑھا ہمیں ہے بخار عید
کہااِک مولانا سے کر لو ادھا ر فطرانہ اس بار
بولے ، بَو جو ہِ عدم ادائیگی ، نہ ہوگی آپکی عید
پہنچے جو مانگنے ادھار، گھر اک یارِ غار، تَھرڈ بار
پایا اسے بھی فاقہ مست خود سا اس سالِ عید
سوچتے تھے ہم بھی گزرے گی کیسے یہ عید
بونس بغیر بھی بھائی شفیق آخر گزر ہی گئی یہ عید