بڑھی جو قربت تو چوٹ کھائی سبق انوکھا پڑھا دیا
کبھی محبت میں درد ایسا ملا کہ راحت دلا دیا
کبھی تو حسرت بھری یہ اپنی جو داستاں بھی سنادیا
تو ابرِ نیساں سے مینہ برسے اسی طرح بس رلا دیا
کبھی تو گریاں کبھی تو خنداں کبھی تو دردِ جگر رہا
کبھی اشاروں کنایوں میں ہی تو رازِ دل سب بتا دیا
کبھی سنا بھی جو نام ان کا تو دل بھی اپنا مچل گیا
کبھی جو لب پر بھی نام آیا تو ہوش اپنا اڑا دیا دیا
ستم کے پردے میں ہی کرم تو چھپا ہمیشہ ہی رہتا ہے
ستم بھی جم کر ہوا کبھی تو کرم بھی جم کر دکھادیا
نوا کبھی ہو تو عاشقانہ ادا کبھی ہو تو دلبرانہ
یہی تو راہِ وفا کے گُن ہیں انہیں سے جیون سجا دیا
یہ دل کبھی اثر کا ہی ٹوٹا توچوٹ بھی اس نے کھائی ہے
یہی تو اس کے رہے مہرباں شِعار ان کو بنا دیا