بھول بیٹھا تھا مگر یاد بھی خود میں نے کیا
وہ محبت جسے برباد بھی خود میں نے کیا
نوچ کر پھینک دیے آپ ہی خواب آنکھوں سے
اس دبی شاد کو ناشاد بھی خود میں نے کیا
جال پھیلائے تھے جس کے لیے چاروں جانب
اس گرفتار کو آزاد بھی خود میں نے کیا
کام تیرا تھا مگر مارے مروت کے اسے
تجھ سے پہلے بھی ترے بعد بھی خود میں نے کیا
شہر میں کیوں مری پہچان ہی باقی نہ رہی
اس خرابے کو تو آباد بھی خود میں نے کیا
ہر نیا ذائقہ چھوڑا ہے جو اوروں کے لیے
پہلے اپنے لیے ایجاد بھی خود میں نے کیا
انکساری میں مرا حکم بھی جاری تھا ظفرؔ
عرض کرتے ہوئے ارشاد بھی خود میں نے کیا