بہت ہی خاموشی سے گزرتی ہے پردیسوں کی چاندرات
متورم آنکھیں بوجھل دل یادوں کی برسات اورچاندرات
صد افسوس اجنبیوں کے دیس میں اجنبی بن کر
اپنوں کے بنا یوں ہی گزر جاتی ھے چاندرات
اداسی کے اس پل دھیرے سے کھل اٹھتے ھے لب
جب یاد آتی ھے اپنے دیس کی چاند رات
وہ پررونق سڑکیں وہ بازاروں کی گیماگیمی
وہ مہندی کی خوشبوں وہ چوڑیوں کی کھنک
وہ رات گیۓ دوستوں کی محفل وہ بابا کا ڈپٹنا
وہ بہنوں کو ستانا اور ماما کی سرزتش
اور کہنا مسکراکے نہ کروتنگ آج ھے چاندرات
وہ میٹھی میٹھی سی خوشی اور چاند رات
جب یاد آتا ھے یہ سب تو آنکھیں بھیگ جاتی ھے
دل زخمی سا ہوکر کہتا ہے یہ کیسی ھے چاندرات