بیٹی تو رب کی رحمت ہے
بابا کے گھر کی رونق ہے
جھومر ہے ماں کے ماتھے کا
بھائیوں کے دل کی راحت ہے
سب چھوڑ کے اک دن جائے گی۔بیٹی جو ہوئی
دکھ سکھ اس کو سہنا ہے
چپ رہ کے ہر غم پینا ہے
بابا کی عزت کی خاطر
بھائیوں کی غیرت کی خاطر
ہر حسرت کا گلا دبا دے گی۔ بیٹی جو ہوئی
بابا کا گھرچھوڑے گی وہ
قسمت کا لکھا مانے گی
پلے باندھ دو جس کے بندھ جائے
شکوہ نہ کرے روئے بھی نہ
بابا کا بھرم یوں رکھے گی ۔ بیٹی جو ہوئی
سسرال کے دکھ سب سہہ لے گی
شکوہ نہ لبوں پہ لائے گی
بابا کی آنکھیں نم نہ ہوں
شوہر کی خوشیاں کم نہ ہوں
دکھ سہہ کر بھی مسکائے گی۔ بیٹی جو ہوئی