غم نے کیا ہے یہ حال آقا
دل ہوگیا پائمال آقا
ہر عادتِ بد مری چھڑادیں
کردیں مجھے خوش خصال آقا
اِتراتے پھر رہے ہیں جو نجدی
کب ہوگا اُنھیں زوال آقا
واللہ! میں ہوں غلام جس کا
وہ میرا ہے ’’بے مثال‘‘ آقا
ہیں شمس و قمر بھی آپ کے محکوم
آپ کے ہیں ماہ وسال آقا
قبضہ میں خدا نے دے دیا ہے
ہے جس قدر مُلک و مال آقا
ہو ظاہر و باطن ایک جیسا
ہو میرا یوں حال و قال آقا
رضوی ہو راہ ، حنفی منزل
بھٹکوں نہ مجھے سنبھال آقا
ہو کاش مُشاہدہ ، مُشاہدؔ
دیکھوں رُخِ پُر جمال آقا