تجھ کو سوچا تو پتا ہو گیا رسوائی کو
میں نے محفوظ سمجھ رکھا تھا تنہائی کو
جسم کی چاہ لکیروں سے ادا کرتا ہے
خاک سمجھے گا مصور تری انگڑائی کو
اپنی دریائی پہ اترا نہ بہت اے دریا
ایک قطرہ ہی بہت ہے تری رسوائی کو
چاہے جتنا بھی بگڑ جائے زمانے کا چلن
جھوٹ سے ہارتے دیکھا نہیں سچائی کو
ساتھ موجوں کے سبھی ہوں جہاں بہنے والے
کون سمجھے گا سمندر تری گہرائی کو
اپنی تنہائی بھی کچھ کم نہ تھی مصروف وسیمؔ
اس لیے چھوڑ دیا انجمن آرائی کو