تری چاہت سمندر ہے
مری ناؤ سفر پر ہے
تمہارے بن یہ میرا دل
کوئی ویران سا گھر ہے
تمہارا نام ہی ہر پل
مِری نوکِ زباں پر ہے
تمہی ہو دیوتا اس کے
جو مندر دل کے اندر ہے
بھلا دوں کس طرح تجھ کو
میں سایہ ہوں تو پیکر ہے
چلی ہوں تجھ میں ملنے کو
میں ندّی ، تو سمندر ہے
تمہارے ساتھ جو گزرے
وہ پل صدیوں سے بہتر ہے
صدفؔ اک آئینہ بن کر
وہ اب میرے برابر ہے