ترے غرور کا حلیہ بگاڑ ڈالوں گا

Poet: جون ایلیا By: Ghazanfar, Islamabad
Tere Guroor Ka Huliya Bigad Daloon Ga

ترے غرور کا حلیہ بگاڑ ڈالوں گا
میں آج تیرا گریبان پھاڑ ڈالوں گا

طرح طرح کے شگوفے جو چھوڑتا ہے تو
میں دل کا باغ نمو ہی اجاڑ ڈالوں گا

کہاں کا سیل اجل تا کنار گاہ عبد
میں ہوں عدم میں سبھی کو لتاڑ ڈالوں گا

بہت ادا سے تو گزرا ہے چشمہ ساروں سے
یہ سن کہ راہ میں تیری میں باڑ ڈالوں گا

شگفتگی کی تری یاد جو دلاتے ہیں
میں ایسے سارے ہی پودھے اکھاڑ ڈالوں گا

یہ طے کیا ہے کہ دریا موج مستی کو
سراب دشت تپیدا میں گاڑ ڈالوں گا

تمام نقش تمنا فریب تھے سو تھے
میں سارے نقش تمنا بگاڑ ڈالوں گا

جو رشتہ ہے دل جاں کا ہے سر بہ سر جھوٹا
سو میں تو اب دل و جاں میں دراڑ ڈالوں گا

جھنڈولے بالوں کی پر فتنہ اس سے کہہ دینا
میں اس کمین کو زندہ ہی گاڑ ڈالوں گا

مجھے تو اب اسے دنگل میں گندہ کرنا ہے
سو میں اسے برے حالوں پچھاڑ ڈالوں گا

Rate it:
Views: 3335
29 Jun, 2021