دشت کربلا میں اپنے خیمے لگا دیئے ہیں
ہوش یزیدیوں کے پل میں اڑا دیئے ہیں
قوت استقامت سے کوہ ستم گرا دیئے ہیں
سید نے کربلا میں وعدے نبھا دئے ہیں
دین محمدی کے گلشن کھلا دیئے ہیں
سن کر مظالم سکتے میں ہے عقل انسانی
دشمن حسین کیلئے تھی ہر چیز کی فراوانی
دیکھ کر جسے یاد آتے ہیں محبوب سبحانی
دین نبی پہ واری اکبر نے بھی جوانی
عباس نے بھی اپنے بازو کٹا دیئے ہیں
نہ رکے نہ تھمے چاہے جبر کے سلسلے
برستے تیروں میں شبیر کے حوصلے بلند رہے
تیر پھینکا اعداءنے معصوم اصغر واسطے
اک بچ گیا تھا غنچہ اس کو بھی پیش کرکے
سید نے جھاڑ کے یوں دامن پھیلا دیئے ہیں
بوقت روانگی ساتھ چلنے کو التجائیں پسارتی تھی
جلاکر چراغ روضے پر فرض اتارتی تھی
بھائی کے انتظار میں دن اپنے گزارتی تھی
منہ کرکے سوئے کوفہ صغرای پکارتی تھی
کیا تو نے سارے اکبر وعدے بھلا دیئے ہیں
تھے زمین کربلا کے ذرے حدت سے دہکتے
آل نبی سے محبت کرنے والے کبھی نہیں بہکتے
یاد و ذکر میں ان کے رہتے ہیں پرندے چہکتے
زینب کے باغ میں جو دوپھول تھے مہکتے
زینب نے وہ بھی دونوں راہ خدا دئیے ہیں
اپنی موت آپ مر گئے یزید شمر کے نخرے
کیا جانیں عظمت اس گھرانے کی بے قدرے
ختم کئے ابن حیدر نے اسلام کو خطرے
تنویر حیدری نے دے دے کے لہو کے قطرے
کرب و بلا کے ذرے ہیرے بنا دئیے ہیں
کوئی کمی نہیں تھی سفاک کے ستم میں حافظ
سکھا گئے صدیق صبر کرنا رنج و الم میں حافظ
لازوال استقامت حسین کے قدم میں حافظ
بخشش ہے اس کی لازم سید کے غم میں حافظ
دو چار آنسو جس نے رو کر بہا دیئے ہیں