پوچھی کسی نے ذات تو بولا کہ میں اروڑی
خانے میں اپنے نام کے لکھتا ہے وہ رتوڑی
عادت کا اسکی پوچھو نہ پکّا ہے وہ ٹپوری
اوقات کچھ زیادہ نہیں صِرف دو ہے کوڑی
حلیئے میں اسکے چہرے پر لمبی سی ایک تھوڑی
زیادہ نمایاں چہرے پر اک ناک ہے پکوڑی
سالا بھی اسکا کم نہیں مشہور ہے سَٹوری
بیگم فساد برپاء سب بولیں بِل بتوڑی
دی وارننگ اُسے کہ جوڈا لی اگر پسوڑی
بدلے میں تیری ٹانگ پہ مارونگا میں ہتھوڑی
رویا وہ انگلی تھام کے اماں نے جو مروڑی
پوچھا جو بولیں غصّے میں کیوں کھیر تھی سپوڑی
اشہر کا بھی تو اس میں برابر کا ساتھ تھا
وہ باغ سے جو کیریاں تم نے تھیں کل بٹوری