تمنا حامیوں سے بچ رہی ہے
بڑی ناکامیوں سے بچ رہی ہے
تجھے ہم کس طرح دیکھیں یہاں پر
نظر بدنامیوں سے بچ رہی ہے
مجھے گھیرا ہوا ہے کوفیوں نے
یہ ہستی شامیوں سے بچ رہی ہے
مری ہے خاص لوگوں سے عقیدت
طبیت عامیوں سے بچ رہی ہے
محبت خوبیوں کے پیرہین میں
جہاں کی خامیوں سے بچ رہی ہے