تمہاری یہ حسد کی آگ اور میں جلاؤں گا
اے دشمنو ! میں دشمنی کا رشتہ بھی نبھاؤں گا
جو الفتوں کا تحفہ میرا ٹھکرا ہی دیاعبث
میں اس کے دل میں بھی ضرور کچھ جگہ بناؤں گا
مری شکست کا جو خواب دیکھتے ہیں ہر گھڑی
انہیں کے ساتھ جشن کامیابی کا مناؤں گا
مجھے پَتا ہے راستہ بڑا ہی پُر خطر ہے یہ
دعاؤں اور کوششوں سے سہل سب بناؤں گا
اے شر پسندو ! چاہتوں سے کیا ہُواہے اب تلک
تمہاری شر پسند چاہتوں کو میں رُلاؤں گا
الہی تیری نصرت و مدد مجھے بھی چاہیے
زمانے کو میں اِک نئی کہانی بھی سناؤں گا
اے دُشمنو ! تمہاری دشمنی بھی کام آگئی
اِسی بہانے حوصلہ میں اور کچھ بڑھاؤں گا
کہیں یہ ٹھوکریں کسی کی جاں نہ لیں اسی لئے
میں راستے میں یہ گِرا ہُوا حَجر ہٹاؤں گا
فہیمؔ دشمنی کبھی کسی کی ٹھیک ہی نہیں
اسی لئے میں دُشمنوں کو دوست بھی بناؤں گا