تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
Poet: Daag Dehlvi By: imtiaz, khi
تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا 
 نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا 
 
 وہ قتل کر کے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں 
 یہ کام کس نے کیا ہے یہ کام کس کا تھا 
 
 وفا کریں گے نباہیں گے بات مانیں گے 
 تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا 
 
 رہا نہ دل میں وہ بے درد اور درد رہا 
 مقیم کون ہوا ہے مقام کس کا تھا 
 
 نہ پوچھ گچھ تھی کسی کی وہاں نہ آؤ بھگت 
 تمہاری بزم میں کل اہتمام کس کا تھا 
 
 تمام بزم جسے سن کے رہ گئی مشتاق 
 کہو وہ تذکرۂ ناتمام کس کا تھا 
 
 ہمارے خط کے تو پرزے کئے پڑھا بھی نہیں 
 سنا جو تو نے بہ دل وہ پیام کس کا تھا 
 
 اٹھائی کیوں نہ قیامت عدو کے کوچے میں 
 لحاظ آپ کو وقت خرام کس کا تھا 
 
 گزر گیا وہ زمانہ کہوں تو کس سے کہوں 
 خیال دل کو مرے صبح و شام کس کا تھا 
 
 ہمیں تو حضرت واعظ کی ضد نے پلوائی 
 یہاں ارادۂ شرب مدام کس کا تھا 
 
 اگرچہ دیکھنے والے ترے ہزاروں تھے 
 تباہ حال بہت زیر بام کس کا تھا 
 
 وہ کون تھا کہ تمہیں جس نے بے وفا جانا 
 خیال خام یہ سودائے خام کس کا تھا 
 
 انہیں صفات سے ہوتا ہے آدمی مشہور 
 جو لطف عام وہ کرتے یہ نام کس کا تھا 
 
 ہر اک سے کہتے ہیں کیا داغؔ بے وفا نکلا 
 یہ پوچھے ان سے کوئی وہ غلام کس کا تھا
یاد آتا ہے ہمیں ہائے زمانا دل کا
تم بھی منہ چوم لو بے ساختہ پیار آجائے
میں سناؤں جو کبھی دل سےفسانا دل کا
ان حسینوں کا لڑکپن ہی رہے یا اللہ
ہوش آتا ہے تو آتا ہے ستانا دل کا
میری آغوش سے کیا ہی وہ تڑپ کر نکلے
ان کا جانا تھا الہٰی کہ یہ جانا دل کا
حور کی شکل ہو تم نور کے پتلے ہو تم
اور اس پر تمہیں آتا ہے جلانا دل کا
چھوڑ کر اس کو تیری بزم سے کیوںکر جاؤں
اک جنازے کا اٹھانا ہے اٹھانا دل کا
بے دلی کا جو کہا حال تو فرماتے ہیں
کر لیا تو نے کہیں اور ٹھکانا دل کا
بعد مدت کے یہ اے “داغ“ سمجھ میںآیا
وہی دانا ہے کہا جس نے نہ مانا دل کا
درد کچھ اور بڑھ گیا میں نے جو کی دوائے دل
میری طرح خدا کرے تیرا کسی پے آئے دل
تو بھی جگر کو تھام کہ کہتا پھرے کے ہائےدل
غنچہ سمجھ کے لے لیا چُٹکی سے یوں مسل دیا
ان کا تو اک کھیل تھا لُٹ گیا میرا ہائے دل
روندو نہ میری قبر کو اس میں دبی ہیں حسرتیں
رکھنا قدم سنبھال کر دیکھو کُچل نہ جائے دل
عاشقِ نامراد کی قبر پہ تھا لکھا ہوا
جس کو ہو زندگی عزیز وہ نہ کہیں لگائے دل
پوچھتے کیا ہو میرے غم ملتے ہیں بے وفا صنم
چھوڑو بُتوں کی دوستی دیتا یہی ہے رائے دل
کسی کے دل کی حقیقت کسی کو کیا معلوم
یقیں تو یہ ہے وہ خط کا جواب لکھیں گے
مگر نوشتۂ قسمت کسی کو کیا معلوم
بظاہر ان کو حیا دار لوگ سمجھے ہیں
حیا میں جو ہے شرارت کسی کو کیا معلوم
قدم قدم پہ تمہارے ہمارے دل کی طرح
بسی ہوئی ہے قیامت کسی کو کیا معلوم
یہ رنج و عیش ہوئے ہجر و وصل میں ہم کو
کہاں ہے دوزخ و جنت کسی کو کیا معلوم
جو سخت بات سنے دل تو ٹوٹ جاتا ہے
اس آئینے کی نزاکت کسی کو کیا معلوم
کیا کریں وہ سنانے کو پیار کی باتیں
انہیں ہے مجھ سے عداوت کسی کو کیا معلوم
خدا کرے نہ پھنسے دام عشق میں کوئی
اٹھائی ہے جو مصیبت کسی کو کیا معلوم
ابھی تو فتنے ہی برپا کئے ہیں عالم میں
اٹھائیں گے وہ قیامت کسی کو کیا معلوم
جناب داغؔ کے مشرب کو ہم سے تو پوچھو
چھپے ہوئے ہیں یہ حضرت کسی کو کیا معلوم
جانتے وہ بری بھلی ہی نہیں
دل لگی ان کی دل لگی ہی نہیں
رنج بھی ہے فقط ہنسی ہی نہیں
لطف مے تجھ سے کیا کہوں زاہد
ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں
اڑ گئی یوں وفا زمانے سے
کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں
جان کیا دوں کہ جانتا ہوں میں
تم نے یہ چیز لے کے دی ہی نہیں
ہم تو دشمن کو دوست کر لیتے
پر کریں کیا تری خوشی ہی نہیں
ہم تری آرزو پہ جیتے ہیں
یہ نہیں ہے تو زندگی ہی نہیں
دل لگی دل لگی نہیں ناصح
تیرے دل کو ابھی لگی ہی نہیں
داغؔ کیوں تم کو بے وفا کہتا
وہ شکایت کا آدمی ہی نہیں
روز کا انتظار کون کرے
ذکر مہر و وفا تو ہم کرتے
پر تمہیں شرمسار کون کرے
ہو جو اس چشم مست سے بے خود
پھر اسے ہوشیار کون کرے
تم تو ہو جان اک زمانے کی
جان تم پر نثار کون کرے
آفت روزگار جب تم ہو
شکوۂ روزگار کون کرے
اپنی تسبیح رہنے دے زاہد
دانہ دانہ شمار کون کرے
ہجر میں زہر کھا کے مر جاؤں
موت کا انتظار کون کرے
آنکھ ہے ترک زلف ہے صیاد
دیکھیں دل کا شکار کون کرے
وعدہ کرتے نہیں یہ کہتے ہیں
تجھ کو امیدوار کون کرے
داغؔ کی شکل دیکھ کر بولے
ایسی صورت کو پیار کون کرے
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا
وہ قتل کر کے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں
یہ کام کس نے کیا ہے یہ کام کس کا تھا
وفا کریں گے نباہیں گے بات مانیں گے
تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا
رہا نہ دل میں وہ بے درد اور درد رہا
مقیم کون ہوا ہے مقام کس کا تھا
نہ پوچھ گچھ تھی کسی کی وہاں نہ آؤ بھگت
تمہاری بزم میں کل اہتمام کس کا تھا
تمام بزم جسے سن کے رہ گئی مشتاق
کہو وہ تذکرۂ ناتمام کس کا تھا
ہمارے خط کے تو پرزے کئے پڑھا بھی نہیں
سنا جو تو نے بہ دل وہ پیام کس کا تھا
اٹھائی کیوں نہ قیامت عدو کے کوچے میں
لحاظ آپ کو وقت خرام کس کا تھا
گزر گیا وہ زمانہ کہوں تو کس سے کہوں
خیال دل کو مرے صبح و شام کس کا تھا
ہمیں تو حضرت واعظ کی ضد نے پلوائی
یہاں ارادۂ شرب مدام کس کا تھا
اگرچہ دیکھنے والے ترے ہزاروں تھے
تباہ حال بہت زیر بام کس کا تھا
وہ کون تھا کہ تمہیں جس نے بے وفا جانا
خیال خام یہ سودائے خام کس کا تھا
انہیں صفات سے ہوتا ہے آدمی مشہور
جو لطف عام وہ کرتے یہ نام کس کا تھا
ہر اک سے کہتے ہیں کیا داغؔ بے وفا نکلا
یہ پوچھے ان سے کوئی وہ غلام کس کا تھا







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 