تم سے بچھڑ کے خود سے بھی ہم دور ہو گئے
گمنام ہو کے اور بھی مشہور ہو گئے
یہ اور بات تم نہ سہی دوسرا سہی
کچھ فیصلے تو ہم کو بھی منظور ہو گئے
شہرت جنہیں ملی تھی ہماری دعاؤں سے
قدرت کی شان ہم سے بھی مغرور ہو گئے
میں نے تو تم کو ٹوٹ کے چاہا تھا جان جاں
تم جانے کس خیال سے مجبور ہو گئے
ہاں اپنی شاعری پہ ہمیں ناز ہے غزلؔ
کہنے کو اپنے خواب کئی چور ہو گئے