میں بھی تو حق رکھتاہوں
کہ تجھے اپنا کہوں
تجھے چاہوں تجھ سے بولوں
تجھے وفا کہوں
سحر کہوں شبنم کہوں
یا صبا کہوں
تجھے پھول کہوں
اپنے آنگن میں لگاؤں
تجھے دیکھوں تجھے چھوؤں
سینے سے لگاؤں
سورج کی نرم کرنوں کی طرح
دھیمی سی دستک ہو تم
اپنے در و دیوار کو
ان کرنوں سے سجاوں
چودھویں کی رات گھر کی چھت پہ
اے چاند! تیری چاندنی میں نہاؤں
تجھے چاند کہوں یا
چاندنی سمجھوں
جسم و جاں سمجھوں
روح کی طرح سمجھوں
سینے میں اٹھے طوفاں کیوں؟
جذبات میں آئے یہ ہیجان کیوں؟
میں بھی تو حق رکھتا ہوں
تجھے کوئی نام دے دوں
تجھ سے بولوں
کوئی بات کروں
تجھے آواز دوں
کوئی پیغام دے دو
کیا اب بھی نہ سمجھو گے
تم میرے کیا ہو!
مجھے جواب دو!!