تم کو نا چاہتے ہوئے بھی بہت چاہتے ہیں ہم
نفرت کی آگ میں محبت کے پھول کھلاتے ہیں ہم
تو لاکھ رشتے ناتوں کی زنجیروں کو توڑ دالے
مگر دشمنی کی تلخ راہوں پر دوستی نبھاتے ہیں ہم
ریگستان کے ٹیلوں پر جنگلی پھول بھی کھلتے ہیں
کانٹوں کو پھول سمجھ کر گلے سے لگاتے ہیں ہم
تم نے جو نا امیدی کے اندھیرے چہرے پر سجا رکھ ہیں
ان بجھے ہوے چراغوں کو پھرسے جلاتے ہیں ہم
کچھ حاصل نہ ہو سکے گا اِن کھوکھلی سیپیوں سے
اے جانِ وفا! تیری دوستی کو خوشبو سے سجاتے ہیں ہم
ہم تجھ کو گلدان میں نہیں دل کے آئینے میں رکھتے ہیں
تو پھر کاغذی پھولوں کو کیوں نہیں اپناتے ہیں ہم