تم ہو جو کچھ کہاں چھپاؤ گے
لکھنے والو نظر تو آؤ گے
جب کسی کو قریب پاؤ گے
ذائقہ اپنا بھول جاؤ گے
آئنہ حیرتوں کا خواب نہیں
خود سے آگے بھی خود کو پاؤ گے
یہ حرارت لہو میں کے دن کی
خودبخود اس کو بھول جاؤ گے
آندھیاں روز مجھ سے پوچھتی ہیں
گھر میں کس دن دیا جلاؤ گے
سایہ روکے ہوئے ہے راہ سفر
تم یہ دیوار کب گراؤ گے
اب جو آئے بھی تم تو کیا ہوگا
خود دکھو گے مجھے دکھاؤ گے
یہی ہوگا کہ تم در جاں پر
دستکیں دے کے لوٹ جاؤ گے
وہ جو اک شخص مجھ میں زندہ تھا
اس کو زندہ کہاں سے لاؤ گے
ایسے موسم گزر گئے ہیں کہ اب
مجھ کو بھی مجھ سا تم نہ پاؤ گے
جو لہو میں دیئے جلاتی تھیں
ایسی شامیں کہاں سے لاؤ گے
خواہشوں کے حصار میں گھر کر
راستہ گھر کا بھول جاؤ گے