تنہائیوں کی برف تھی بستر پہ جا بہ جا
Poet: Sultan Akhtar By: Lateef, khi
تنہائیوں کی برف تھی بستر پہ جا بہ جا
شعلوں کا رقص رات بدن پر نہ ہو سکا
پرچھائیوں کے عارض و لب کون چومتا
لذت فروش جسم سے میں دور ہی رہا
میں نے ہی اپنے دل کے ورق پر اسے لکھا
جو حادثہ کسی سے رقم ہو نہیں سکا
ہر سمت کھنچ گئے تری یادوں کے سائبان
کل رات درد لوٹ گیا چیختا ہوا
یادوں نے اضطراب کی ریکھائیں کھینچ دیں
ورنہ مرے سکون کا کاغذ سفید تھا
چہروں سے اڑ چکے ہیں شناسائیوں کے عکس
اب دوستوں کی کھوج میں تو عمر مت گنوا
دل میں ستم کا زہر لبوں پر مے خلوص
یاران خوش کلام کا اب تجربہ ہوا
شاید اسے یقین کی انگلی نہ چھو سکے
اک شخص اپنے آپ سے برسوں نہیں ملا
حائل تھی راستے میں روایات کی خلیج
وہ دل کی بات اپنی زباں تک نہ لا سکا
میں چپ رہا تو قید کی میعاد بڑھ گئی
چیخا تو اور حلقۂ زنجیر کس گیا
پانی کے انتظار میں پھر ریت پھانکیے
اخترؔ یہ دن بھی دھوپ کی دلدل میں دھنس گیا
آنکھیں لگیں تو نیند کا میدان صاف تھا
دیوار دل سے اتری ہیں تصویریں سینکڑوں
پسماندہ خواہشوں سے اسے اختلاف تھا
دیکھا قریب جا کے تو شرمندگی ہوئی
چہرے پہ اپنے گرد تھی آئینہ صاف تھا
اب کے سفر میں دھوپ کی دریا دلی نہ پوچھ
اور سایۂ شجر سے مرا اختلاف تھا
اس طرح اس نے مجھے بے سر و سامان کیا
خاک ویراں تھا فقط ہو کہ صدا گونجتی تھی
میری وحشت نے بیاباں کو بیابان کیا
میں نے اک شخص کی شائستہ مزاجی کے لیے
اپنی ہر خواہش خوش رنگ کو قربان کیا
اس نے جب چاک کیا وجد میں پیراہن جاں
میں نے بھی نذر جنوں اپنا گریبان کیا
عمر بھر ضبط کی دیوار نہ توڑی میں نے
آہ کھینچی نہ کبھی رنج کا اعلان کیا
عکس حیرت کے سوا کچھ نہ تھا آئینے میں
اپنی آنکھوں کو بہت میں نے پریشان کیا
پھر بھی تعمیر تمنا کی نہ تکمیل ہوئی
میں نے آنگن کو کبھی در کبھی دالان کیا
بانٹ دی لوگوں میں اس نے مری دریوزہ گری
پھر مجھے اخترؔ کم مایہ سے سلطان کیا
شعلوں کا رقص رات بدن پر نہ ہو سکا
پرچھائیوں کے عارض و لب کون چومتا
لذت فروش جسم سے میں دور ہی رہا
میں نے ہی اپنے دل کے ورق پر اسے لکھا
جو حادثہ کسی سے رقم ہو نہیں سکا
ہر سمت کھنچ گئے تری یادوں کے سائبان
کل رات درد لوٹ گیا چیختا ہوا
یادوں نے اضطراب کی ریکھائیں کھینچ دیں
ورنہ مرے سکون کا کاغذ سفید تھا
چہروں سے اڑ چکے ہیں شناسائیوں کے عکس
اب دوستوں کی کھوج میں تو عمر مت گنوا
دل میں ستم کا زہر لبوں پر مے خلوص
یاران خوش کلام کا اب تجربہ ہوا
شاید اسے یقین کی انگلی نہ چھو سکے
اک شخص اپنے آپ سے برسوں نہیں ملا
حائل تھی راستے میں روایات کی خلیج
وہ دل کی بات اپنی زباں تک نہ لا سکا
میں چپ رہا تو قید کی میعاد بڑھ گئی
چیخا تو اور حلقۂ زنجیر کس گیا
پانی کے انتظار میں پھر ریت پھانکیے
اخترؔ یہ دن بھی دھوپ کی دلدل میں دھنس گیا






