تو آشنائے جذبۂ الفت نہیں رہا
دل میں ترے وہ ذوق محبت نہیں رہا
پھر نغمہ ہائے قم تو فضا میں ہیں گونجتے
تو ہی حریف ذوق سماعت نہیں رہا
آئیں کہاں سے آنکھ میں آتش چکانیاں
دل آشنائے سوز محبت نہیں رہا
گل ہائے حسن یار میں دامن کش نظر
میں اب حریص گلشن جنت نہیں رہا
شاید جنوں ہے مائل فرزانگی مرا
میں وہ نہیں وہ عالم وحشت نہیں رہا
ممنون ہوں میں تیرا بہت مرگ ناگہاں
میں اب اسیر گردش قسمت نہیں رہا
جلوہ گہہ خیال میں وہ آ گئے ہیں آج
لو میں رہین زحمت خلوت نہیں رہا
کیا فائدہ ہے دعوئے عشق حسین سے
سر میں اگر وہ شوق شہادت نہیں رہا