تھا کبھی انتظار ختم ہوا
کیا جو تھا میں نے پیار ختم ہوا
بات مانی نہیں کسی نے مری
میرا اب اقتدار ختم ہوا
اس نے دیکھا نہیں محبت سے
کیا تھا جو اعتبار ختم ہوا
زندگی بھر رہا ہوں میں تنہا
اب یہ دشمن کا وار ختم ہوا
زلفِ سرکار اب سنبھال ذرا
اب نہیں کوئی یار ختم ہوا
جو بھی شہزاد کرنا ہے کر لو
اب نہیں اختیار ختم ہوا