تھا کوئی یا نہیں تھا جو کچھ تھا
دل کے اندر کہیں تھا جو کچھ تھا
تو بھی اپنے سے خوش گماں تھا بہت
میں بھی اپنے تئیں تھا جو کچھ تھا
شہر خوباں میں وہ وفا دشمن
خوب صورت تریں تھا جو کچھ تھا
درد مے تھی کہ تلخیٔ ہستی
جام میں تہہ نشیں تھا جو کچھ تھا
چھوڑ آئے عبث در جاناں
یار سب کچھ وہیں تھا جو کچھ تھا
عشق اکسیر تھا دلوں کے لئے
زہر تھا انگبیں تھا جو کچھ تھا
ہوش آیا تو اب کھلا ہے فرازؔ
میں تو کچھ بھی نہیں تھا جو کچھ تھا