کچھ تو طبعیت ہے ناساز ہے کچھ بخار بھی
آمد کا ہے تیری کچھ انتظار بھی
آنے کا یوں تیرا انتظار کیا
بڑھ گیا پرچون والے کا ادھار بھی
ہر چیز سجی یہاں تیری من پسند
ساتھ میں شکار پوری اچار بھی
ہے جس کی مثال سو بیمار کی
لایا تھا میں ایک وہ انار بھی
تیرہ شبی پر تیری میں کیا کہوں
اپنے تو اپنے ہیں لب کشا اغیار بھی
کہے دیتا ہوں عاذ ہے جنوں یہ برا
بن نہ جائے کہیں تیرا اک مزار بھی