تیری زلفوں کے پیچ و خم کی قسم
چین سے ہیں تیرے ستم کی قسم
جس نے دیکھیں سو دل گنوا بیٹھا
تیری آنکھیں وہ جام جم کی قسم
ہم تو دیکھا کیے تھے حسرت سے
سرخیٔ لب کو چشم نم کی قسم
لڑکھڑانا ہے ان کی فطرت میں
کون کھائے تیرے قدم کی قسم
جانے کب پی تھی پر نشہ نہ گیا
میرے ساقی تیرے کرم کی قسم
بت گئے بت کدہ ہے ویرانہ
دل ہے باقی ابھی حرم کی قسم
ہو مبارک تمہیں یہ بزم تراب
ہم بھی خوش ہیں جہان غم کی قسم