جب سب تھا تب غرور تھا
جب کچھ نا تھا تب تھا شکوہ
جب رنگینیاں چاروں اور تھیں
خود پر بڑا ناز تھا، بے باق تھا، بے شمار تھا۔
چھٹنے لگی رنگینیاں، کچھ پستی کا خوف ہوا۔
کچھ لوگوں کا ڈر تھا، کچھ تنزلی کا گماں ہوا۔
بچھا جائے نماز ، اٹھائے ہاتھ، لڑکھڑائی زباں،
التجا بھی کیا، مال و زر کی تھی آرزو، دنیا سے بڑا پیار تھا۔
چھٹ گئے بادل، دکھا کھلا آسمان۔
کھو گئے، پھر سو گئے ہوس کی آغوش میں، ہوش ہی
کہاں تھا۔
خدا وند کا کرم ہوا، ناچیز کو عطاء کیا
ایسے خم دیے ، کچھ تکلیف میں بھی سواد تھا
آرزو جو دنیا کی تھی، ہوا ہوئی ، بلاوجہ ہوئی
حسرت جو رتبے کی تھی ،رفع ہوئی، دفع ہوئی
نہ رقیب سے آڑ نا شفیق پر ناز
حسن سادگی کچھ اس طریق سے عطاء ہوئی
اٹھنے لگے ہاتھ تیری بارگاہ میں، دل نے کی دعا پھر سے۔
اب کہ معاملہ کچھ اور تھا التجا پُر زور تھی
نہ شفا کی طلب نہ دوا کی آرزو
دنیا کی چاہت ، نہ رتبے کی آس، یہ دل لگی کچھ اور تھی
اس جہاں میں وہ اتارے جو ستارے، اپنی مخلوق کے واسطے
جو تیری زبان ہیں، جن کا تیری دنیا میں مقام ہے
وہ جو تیری عبادت میں سرشار ہیں ، تجھ سے ملنے کو بےقرار ہیں
تیری مخلوق کی راست ہیں ، تیری بندگی میں بےشمار ہیں
جن کا نام تیری جنّت میں پہلے سے لکھا گیا
جن کا ذکر تیرے قرآن میں بار بار ہے
کچھ اس طرح کی پاكیزگی کی طلب گار ہوں، گنہگار ہوں ،
تیری عنایت سے مطمین، تیری شکرگزار ہوں
اپنی اولاد کی راہ راستی کی طلبگار ہوں ، اشک بار ہوں
بنا انکو محافظ پاک دین کا، خدمت گزار ہوں، فتح یاب ہوں
سلامت رکھنا اپنا دین ، تجھ کو کتنا آسان ہے، ہمارا امتحان ہے
اس امتحاں میں کر کامیاب ، ہم انساں ہیں تو رحمان ہے
جو عطاء کیا اس پر شکرگزار ہوں ہر بار ہوں
اپنے گناہوں پر ، شرم سار ہوں، اے رب العالمین بار بار ہوں