تیری محفل میں سب ہمہ تن گوش بیٹھے ہیں
اور ہم اک کونے میں روپوش بیٹھے ہیں
ایسے نظریں جھکائے بیٹھے ہیں تیرے پہلو میں
جیسے کسی شاہ کے سامنے حلقہ بگوش بیٹھے ہیں
ہمارے دل میں تو اک ہلچل سی مچی ہے
یہ ہماری ہمت ہے کہ ہم خاموش بیٹھے ہیں
ڈر کے مارے کئی محفلوں میں جاتے ہی نہیں
ہمارے انتظار میں کئی سیاہ گوش بیٹھے ہیں
پچھلے دنوں جس نے میرے جوتے چرائے تھے
اس کی خاطر لیے ہاتھ میں پاپوش بیٹھے ہیں
کہا بھی تھا کہ جاڑے میں بزم سخن نہ سجا
دیکھ پچھلی قطار والے بنے خرگوش بیٹھے ہیں
چندے کا مطالبہ کوئی کرے بھی تو کیا
لگتا ہے تیری بزم میں سبھی سفید پوش بیٹھے ہیں
یہاں اصغر جیسے لوگوں کو کون سنے گا
جہاں بڑے بڑے فردوس گوش بیٹھے ہیں