تیری نعمتوں سے جدا نہیں، تیری رحمتوں سے خفا نہیں
میں سمجھ گیا تیری چاہ کو، میری چاہ میں تیری رضا نہیں
تیرا فیض تو لبریز ہے، میرا عشق ہے بھٹکا ہوا
جو کہ تھا صراطِ مستقیم، اُسی راہ سے میں گزرا نہیں
وہ میری دعا میں جو نام تھا، کسی اور سے کیوں جُڑ گیا
تو عطا کرے تو خیر ہو، کچھ اثر دعا میں رہا نہیں
دلِ مضطرب نے تو بارہا، مجھے یہ کہا اسے بھول جا
میں نے یہ کہا پہلو نشیں، میرے ضابطوں میں دغا نہیں
میرے پیشوا، میرے راہبر، اسے بخش دے اسے معاف کر
ناداں ہے وہ، انجان ہے، میرے عشق سے آگاہ نہیں
تو اگرچہ ہے میری ذات میں، شاہ رگ سے بھی نزدیک ہے
توَ میں کیا کہوں تجھے ہے پتا، میرا حال تجھ سے چھپا نہیں
تیری چاہتیں، تیری خواہشیں، سب کچھ بجا، لیکن "ثقی"
توُ نے رو برو تیرے یار کے، کبھی کچھ کہا یا سُنا ؟، نہیں