مطلع جو مرا حرف ابابیل سے آیا
مقطع مرا خود سورہ ء الفیل سے آیا
سوچا کہ رقم کیسے کروں نعت ِنبی کو
لکھنے کو بھی پَر حضرت ِ جبریل سے آیا
والشمس نے ہر حرف کیا دن کے مماثل
پھر شعر بھی والیل کی قندیل سے آیا
ہر شے نے جِلا نورِ محمدسے ہے پائی
نقشہ ء جہاں آپ کی تشکیل سے آیا
ہر دورِ پیمبر میں تراﷺ ذکرٰ جلی ہے
چرچا ترا توریت سے انجیل سے آیا
سربستہ کئی راز کُھلے مجھ پہ اچانک
قرآن جو پڑھتا ہوا تفصیل سے آیا
جس جا سے احادیث نبی ﷺ ہم کوملی ہیں
قرآن بھی اس منبرٰ تنزیل سے آیا
قرآن کی تفسیر کہاں سب کو میسر
یہ فرق تراجُم کا بھی “تاویل” سے آیا
بیٹوں میں پیمبر کے بھی ہوتی ہے رقابت
یہ ڈھنگ بھی انسان میں ہابیل سے آیا
“تنقیص ” کو تھاما تو کہیں ہم نے “غُلو” کو
کچھ علم بھی یوں ” کلمہ ء تبدیل ” سے آیا
کیوں شعر نہ ہوتا مرا یاقوت کی مانند
جب تیرتا میں بحر ِ افاعیل سے آیا
صورت میں وہ اک نعت کے ڈھلتی گئی مفتی
پڑھتا ہوا آیات جو ترتیل سے آیا