جب رخ حسن سے نقاب اٹھا
بن کے ہر ذرہ آفتاب اٹھا
ڈوبی جاتی ہے ضبط کی کشتی
دل میں طوفان اضطراب اٹھا
مرنے والے فنا بھی پردہ ہے
اٹھ سکے گر تو یہ حجاب اٹھا
شاہد مئے کی خلوتوں میں پہنچ
پردۂ نشۂ شراب اٹھا
ہم تو آنکھوں کا نور کھو بیٹھے
ان کے چہرے سے کیا نقاب اٹھا
عالم حسن سادگی توبہ
عشق کھا کھا کے پیچ و تاب اٹھا
ہوش نقص خودی ہے اے احسانؔ
لا اٹھا شیشۂ شراب اٹھا