جز ترے کوئی بھی دن رات نہ جانے میرے
Poet: احمد فراز By: ہارون فضیل, Karachiجز ترے کوئی بھی دن رات نہ جانے میرے 
 تو کہاں ہے مگر اے دوست پرانے میرے 
 
 تو بھی خوشبو ہے مگر میرا تجسس بے کار 
 برگ آوارہ کی مانند ٹھکانے میرے 
 
 شمع کی لو تھی کہ وہ تو تھا مگر ہجر کی رات 
 دیر تک روتا رہا کوئی سرہانے میرے 
 
 خلق کی بے خبری ہے کہ مری رسوائی 
 لوگ مجھ کو ہی سناتے ہیں فسانے میرے 
 
 لٹ کے بھی خوش ہوں کہ اشکوں سے بھرا ہے دامن 
 دیکھ غارت گر دل یہ بھی خزانے میرے 
 
 آج اک اور برس بیت گیا اس کے بغیر 
 جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے 
 
 کاش تو بھی میری آواز کہیں سنتا ہو 
 پھر پکارا ہے تجھے دل کی صدا نے میرے 
 
 کاش تو بھی کبھی آ جائے مسیحائی کو 
 لوگ آتے ہیں بہت دل کو دکھانے میرے 
 
 کاش اوروں کی طرح میں بھی کبھی کہہ سکتا 
 بات سن لی ہے مری آج خدا نے میرے 
 
 تو ہے کس حال میں اے زود فراموش مرے 
 مجھ کو تو چھین لیا عہد وفا نے میرے 
 
 چارہ گر یوں تو بہت ہیں مگر اے جان فرازؔ 
 جز ترے اور کوئی زخم نہ جانے میرے







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 